Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر1

"عدیل۔۔!! چھوڑو!!
چھوڑو مجھے!!" اس نے بمشکل اپنی ٹوٹتی سانسوں کو بحال کرتے ہوئے، ہلکی آواز میں کہا، جس کا سامنے والے نے کوئی اثر نہ لیا۔
وہ ہنوز اپنی آنکھوں میں وحشت اور انداز میں عجیب پاگل پن لیے،اپنے دونوں ہاتھوں سے  اس کے گلے پر دباؤ ڈالے ہوئے تھا۔
"Shut up!! You bitch!!
You've killed my wife!!"
"مممم۔۔میں نے۔۔کچھ نہیں کیا۔۔!! میں بھلا کیوں ماروں گی اپنی بہن کو۔۔!! چھوڑو میرا گلا۔۔!! میرا سانس بند ہورہا ہے!!" عنقا نے تڑپ کر التجا کی، 
اذیت کی شدت سے اس کی آنکھیں مسلسل چھلک رہی تھیں،وہ بری طرح کھانستے ہوئے بمشکل سانس لے پا رہی تھی،
پر سامنے والا اس کی حالت پر کسی قسم کا کوئی ترس کھانے کے موڈ میں نہیں تھا، اس وقت اس پر جنون سوار تھا اور وہ سفاکیت سے اس معصوم کو تکلیف پہنچا رہا تھا۔۔!!
ایسی تکلیف جس میں اُس معصوم کی زندگی ختم ہونے کا خدشہ تھا۔۔!!
وہ تڑپ رہی تھی۔۔!! اس سے رحم طلب کر رہی تھی۔۔!!
لیکن وہ اُس کی نہیں سن رہا تھا۔۔!!
بلکہ اپنی سنا رہا تھا۔۔!! 
اپنی بھڑاس نکال رہا تھا۔۔!!
"ایسے کیسے چھوڑ دوں تمہیں۔۔؟؟ تم نے میری بیوی کو مارا ہے۔۔!! اور جیسے تم نے اُسے مارا ویسے تم بھی مرو گی۔۔!!" وہ اپنی پوری طاقت سے چلایا۔
عنقا بے ہوش ہونے کو تھی کہ اس نے اپنے ہاتھوں کی گرفت کو ڈھیلا کیا، جھٹکے سے بیڈ پر پٹخا اور خود لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر نکلا۔
××××××××××
"اففف۔۔!! غانیہ۔۔!! وہ ابھی تک نہیں آیا۔۔!!" 
عنقا، یونیورسٹی میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کے باہر کھڑی، عادل کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔۔!!
"میڈم۔۔!! تھوڑا حوصلہ رکھو۔۔!! شہزادے صاحب ہمیشہ کی طرح لیٹ ہی پہنچے گے۔۔!!" غانیہ نے اس کی حالت کا مزہ لیتے ہوئے کہا۔
"تمہارے منہ میں خاک۔۔!! گندی لڑکی۔۔!!" عنقا نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا۔
"اوئے۔۔!! زبان سنبھال کر۔۔!! یہ میرے منہ میں خاک ڈالنے کی بجائے۔۔ اپنے شہزادے کے کان کھینچو۔۔!!" غانیہ نے انگلی دکھاتے ہوئے، مصنوعی سے انداز میں وارن کیا۔
عنقا کو عادل کے لیے "شہزادے" کا لقب پسند آیا تھا اس لیے وہ دھیمے سے مسکرائی۔
" پتہ نہیں کیا کرتا رہتا ہے یہ۔۔!! اس کے چکر میں، مجھے بھی، تمہارے ساتھ ساتھ انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے۔۔!!" غانیہ نے اپنے ہتھیلی کی پشت ماتھے پر رکھ کر دہائی دینے والا انداز اپنائے، اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
اور عنقا ، غانیہ عرف "ایکٹنگ کی دکان" کی اس حرکت پر ایک بار پھر مسکرائی۔۔!! 
اس بار اس کی مسکراہٹ خاصی جاندار تھی کیونکہ اس نے سامنے سے اس دشمنِ جاں کو جو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
××××××××
مسلسل تین لیکچرز لینے کے بعد وہ اچھی خاصی بور ہوچکی تھی،
"کچھ کھانے چلیں۔۔" اس نے اپنے فیورٹ ، فرینچ فرائز کا چٹخارہ    تصور    میں لاتے ہوئے، ہونٹوں پر زبان پھیر کر پوچھا۔
"ایک تو عنقا۔۔۔ تم بھوکی بہت ہو۔۔!!! گھر سے کچھ کھا پی کر نہیں آتی؟؟ یہاں آتے ہی تمہیں کچھ نہ کچھ کھانے کی سوجھتی ہے۔۔" 
غانیہ نے چڑ کر کہا، کیوں کہ وہ عادل کے ساتھ، کچھ دیر پہلے ہوئے لیکچر کے لاسٹ پوائنٹ کے متعلق ڈسکشن شروع کرنے لگی تھی کہ عنقا صاحبہ نے فوراً سے پہلے ہی مداخلت کردی۔
اب حال کچھ یوں تھا کہ بھاڑ میں گیا لیکچر، بھاڑ میں گئی ڈسکشن، اب تو شہزادے صاحب نے ہر حال میں عنقا صاحبہ کا کہا ماننا تھا۔۔۔ سو۔۔ غانیہ ڈسکشن کو ملتوی کرتے، عادل اور عنقا کے ساتھ چل دی۔
××××××××
"کافی دن ہوگئے تم نے گھر چکر ہی نہیں لگایا۔۔ آج یونی کے بعد چلو گی میرے ساتھ۔۔؟؟" عادل نے چاکلیٹ ملک شیک کا سِپ لیتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں۔۔ دن تو کافی ہوگئے ہیں۔۔!! ان فیکٹ میں خود بھی یہی سوچ رہی تھی۔۔!! آپی بھی کب سے چکر لگانے کو بول رہی ہیں۔۔!!" عنقا نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔
"چلو۔۔ پھر فائنل کرو۔۔!! تم آج ساتھ چل رہی ہو ناں؟؟" عادل نے چہکتے ہوئے پوچھا۔
"ارے نہیں۔۔!! آج چھوڑو۔۔!! میں کل چلوں گی۔۔!! وہ امی، ابو سے نہیں پوچھا ناں۔۔!! کل میں گھر پرمیشن لے کر آؤں گی، اوکے۔۔۔؟؟" عنقا نے اس کو فوراً منع کیا۔
عادل کا منہ لٹک کر رہ گیا۔۔ اس نے اتنے پیار سے پوچھا تھا۔۔ 
غانیہ ان دونوں کے درمیان بیٹھی، سینڈوچ کھاتے ہوئے،خاموشی ان کی ڈائلاگ بازی انجوائے کر رہی تھی۔
"ارے۔۔ نہیں ناں۔۔!! تم آج ہی چلو۔۔!! بھئی۔۔ میرا موڈ۔۔ تمہیں آج لے جانے کا ہے اور تم کل پر ٹال رہی ہو۔۔!! اور۔۔ جہاں تک انکل آنٹی کی بات ہے تو ان کو تم فون پر انفارم کردو۔۔ آئی ہوپ۔۔ وہ منع نہیں کریں گے۔۔!!"
عادل نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
عنقا ، بھلا کتنی دیر تک اس کی ضد کے سامنے ٹِک سکتی تھی۔۔!!
سو وہ مان گئی۔۔ جس پر عادل کافی خوش ہوا۔۔
عنقا کی توجہ اب عادل سے ہٹ کر غانیہ کی طرف مبذول ہوئی۔۔ 
"پتہ چل گیا۔۔؟؟ میں بھی یہاں بیٹھی ہوں۔۔!!" غانیہ نے مصنوعی طنز سے کہا۔
جس پر عنقا مسکرائی۔
جب عادل کے اس کے آس پاس ہوتا تو وہ ایسے ہی بات، بے بات مسکراتی رہتی۔۔ اور اس کی اِسی مسکراہٹ پر تو وہ جان دیتا تھا۔
×××××××
مصطفیٰ لغاری شہر کے معروف اور نامور بزنس مین تھے۔ عدیل مصطفیٰ اور عادل مصطفیٰ ، مصطفیٰ لغاری اور فوزیہ مصطفیٰ کے بیٹے تھے۔ 
عدیل ایک اچھا خاصہ میچور، سیدھا اور تھوڑا اکڑو سا بندہ تھا جس نے اپنی پڑھائی مکمل ہوتے ہی اپنے والد کا بزنس سنبھالا  اپنی قابلیت کے بل بوتے پر،اِسے خوب ترقی بھی بخشی۔ اور جب اس کے والدین نے ، اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ایک خوبصورت، نازک اور پیاری سی لڑکی سے شادی کا بولا تو کوئی رولا ڈالے بغیر، بہت آرام سے شادی بھی کر لی۔
لیکن پتہ نہیں اسے کیا سوجھی تھی کہ اس نے شادی سے پہلے ایک شرط رکھی۔۔ کہ وہ شادی کے بعد ہی اپنی دلہن کا دیدار کرے گا، وہ صرف زبانی کلامی ہی، اریرے کی خوبصورتی، اس کے حلیے اور اس کے حسن سے واقف تھا۔۔۔ مگر پھر بھی نجانے کیوں وہ اس کو دیکھے، اس کو سنے اور اس کو جانے بغیر ہی بے تحاشہ چاہنے لگا تھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں۔۔؟؟ مگر اس کا دل۔۔ اریزے سلیمان کا نام سنتے ہی یا پھر اس کا تصور کرتے ہی۔۔ اپنی جگہ سے باہر اچھلنے کو ہو جاتا۔
اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب۔۔!! اس کے سب جذبات، اس کی ساری محبتیں جب اریزے کے نام ہوئیں۔۔!! کب وہ اس کے دل کی ملکہ بنی۔۔!!
کبھی تو اس کا دل چاہتا کہ وہ ایک بار، اس کی ایک جھلک دیکھ لے۔۔ مگر نہیں۔۔!! اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ نکاح کے بعد ہی اپنی نظروں کی پیاس بجھائے گا۔۔!! 
باہر سے بے حس، جذبات سے عاری اور مغرور دِکھنے والا انسان، ایک معمولی سی لڑکی کو اپنا آپ تک سونپ چکا تھا۔۔ اور یہ سب بالکل غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔۔!!
پھر کرتے کراتے وہ دن بھی آیا کہ جب اریزے ، عدیل کی دلہن بن کر اس کے سامنے موجود تھی۔۔ وہ اس کے تصور سے بڑھ کر  حسین تھی۔۔ وہ تو وہ اریزے تھی ہی نہیں جس سے اس نے محبت کی تھی۔۔ عدیل نے سوچا کہ یہ لڑکی تو بالکل اس لائق نہیں کہ اس سے محبت کی جائے۔۔ یا صرف محبت کی جائے۔۔!! وہ اریزے عدیل مصطفیٰ تھی۔۔!!
 وہ عدیل کی محبت نہیں بلکہ اس کے عشق کی حقدار تھی۔۔!!
 اور عدیل کو اس سے سچ میں عشق ہوا تھا۔۔
 وہ سر تا پا۔۔ خود کو اریزے کے عشق میں ڈبو چکا تھا۔
در حقیقت تو وہ بھی بالکل عام سی ہی لڑکی تھی۔۔ جیسے عموماً لڑکیاں ہوتی ہیں۔۔ مگر عدیل کے لیے وہ کہیں سے بھی عام نہ تھی۔۔۔ اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں وہ اس کے لیے ، یک دم اتنی خاص بنی۔۔!!
عدیل کے ہر ہر اظہار سے، اریزے کے لیے دیوانگی اور جنون جھلکتا تھا۔
اس کا ہر ہر انداز، اس کی والہانہ محبت کا گواہ تھا۔
اور یہ عدیل کی محبت تھی کہ جس نے اریزے کو بھی دِنوں میں اس کا دیوانہ بنادیا تھا۔
××××××××
عدیل کا چھوٹا بھائی، عادل یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا، وہاں عنقا سلیمان اس کی سب اچھی اور بہت خاص دوست تھی۔۔ ایسی دوست۔۔ جسے وہ مستقبل میں اپنی ہم سفر بنانے کی خواہش رکھتا تھا۔
عدیل کی شادی کے دوران، جب  عادل کو پتہ چلا کہ عنقا، اریزے کی بہن ہے۔۔ تو اسے بے حد خوشی ہوئی۔۔ 
اس نے جلدی مچا کر۔۔ اپنے مام، ڈیڈ کو کنونس کیا اور   وقت ضائع کیے بغیر اس سے منگنی کر کے، اپنی امانت بنالیا جسے وہ بہت جلد اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔ مگر فی الحال۔۔ شدید خواہش کے باوجود بھی، اپنی پڑھائی، اپنے کرئیر کی وجہ سے، وہ اسے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا۔۔!! 
××××××
ان سب میں سے ہر ایک، اس وقت اپنی اپنی زندگی کا بہترین وقت گزار رہا تھا۔۔!!
خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور زندگی۔۔!!!
وہ اس وقت یہ بات فراموش کیے ہوئے تھے کہ خوشیاں عارضی ہوتی ہیں۔۔!! ان کا قیام بے حد قلیل ہوتا ہے۔۔!!
پر ان کے "فراموش" کرنے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!! 
ان کے "بُھلا" دینے سے بھلا کیا فرق پڑنا تھا۔۔!!

   1
0 Comments